38
یرمیاہؔ کو حوض میں پھینکا جانا
1پھر شفطیاہؔ بِن متّانؔ اَور گِدلیاہؔ بِن، پشحُورؔ اَور یُوکُلؔ یا یہُوکُولؔ بِن شلمیہؔ اَور پشحُورؔ بِن ملکیاہؔ نے وہ باتیں سُنیں جو یرمیاہؔ سَب لوگوں سے بَیان کر رہے تھے، 2”یَاہوِہ فرماتے ہیں: ’جو کویٔی اِس شہر میں رہے گا وہ تلوار، قحط اَور وَبا سے مَرے گا لیکن جو کویٔی کَسدیوں کے پاس چلا جائے گا وہ زندہ رہے گا۔ اَپنی جان کی امان پایٔےگا اَور زندہ رہے گا۔‘ 3اَور یَاہوِہ یُوں فرماتے ہیں، ’یہ شہر یقیناً شاہِ بابیل کی فَوج کے حوالہ کیا جائے گا جو اُسے تسخیر کر لے گا۔‘ “
4تَب حاکموں نے بادشاہ سے فرمایا، ”اِس شخص کو سزائے موت ملنی چاہئے کیونکہ یہ جو کچھ اِس شہر میں بچے ہُوئے فَوجیوں سے اَور تمام لوگوں سے کہہ رہاہے، اُس سے اُن کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ یہ شخص اِس قوم کی خیرسگالی نہیں چاہتا بَلکہ اُن کی تباہی کا خواہاں ہے۔“
5صِدقیاہؔ بادشاہ نے فرمایا، ”وہ تمہارے ہاتھ میں ہے تُم اُس کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرو، بادشاہ تُمہیں ہرگز نہ روکے گا۔“
6تَب اُنہُوں نے یرمیاہؔ کو لے کر بادشاہ کے شہزادہ ملکیاہؔ کے حوض میں ڈال دیا جو پہرے والے قَیدخانہ کے صحن میں تھا۔ اُنہُوں نے یرمیاہؔ کو رسّیوں کی مدد سے حوض میں اُتارا۔ اُس میں پانی نہ تھا، صِرف کیچڑ تھا اَور یرمیاہؔ اُس کیچڑ میں دھنس گیا۔
7لیکن کُوشی عبیدؔ ملِکؔ نے جو شاہی محل میں حاکم مُقرّر تھا اُسے مَعلُوم ہُوا کہ اُنہُوں نے یرمیاہؔ کو تاریک حوض میں ڈال دیا ہے۔ اُس وقت بادشاہ بِنیامین کے پھاٹک پر بیٹھا ہُوا تھا۔ 8تَب عبیدؔ ملِکؔ نے شاہی محل سے باہر نکل کر بادشاہ کے پاس آکر اُس سے درخواست کی، 9”اَے بادشاہ، میرے آقا، اِن لوگوں نے یرمیاہؔ نبی کے ساتھ جو حرکت کی ہے وہ نہایت بُری ہے۔ اُنہُوں نے اُسے حوض میں پھینک دیا ہے جہاں وہ بھُوک سے مَر جائے گا کیونکہ شہر میں اَب روٹی بھی نہیں بچی ہے۔“
10تَب بادشاہ نے کُوشی عبیدؔ ملِکؔ کو حُکم دیا، ”یہاں سے تیس آدمی اَپنے ساتھ لے اَور اِس سے پہلے کہ وہ مَر جائے یرمیاہؔ نبی کو حوض سے باہر نکال لے۔“
11اِس لیٔے عبیدؔ ملِکؔ اُن آدمیوں کو ساتھ لے کر شاہی محل میں خزانہ کے نیچے کے کمرے میں گیا۔ اَور اُس نے وہاں سے کچھ پُرانے چیتھڑے اَور خارج پُرانے کپڑے لے کر اُنہیں رسّیوں کی مدد سے حوض میں یرمیاہؔ کے پاس لٹکا دیا۔ 12اَور کُوشی عبیدؔ ملِکؔ نے یرمیاہؔ سے کہا، ”اِن پُرانے چیتھڑے اَور خارج پُرانے کپڑوں کو اَپنی بغل میں رکھ تاکہ رسّی کے لیٔے گدّی کا کام کرے۔“ اَور یرمیاہؔ نے وَیسا ہی کیا۔ 13اَور اُنہُوں نے اُسے رسّیوں سے کھینچا اَور حوض سے باہر نکالا؛ اَور یرمیاہؔ پہرے کے قَیدخانہ کے صحن میں رہنے لگا۔
صِدقیاہؔ بادشاہ کا یرمیاہؔ سے دوبارہ سوال کرنا
14تَب صِدقیاہؔ بادشاہ نے یرمیاہؔ نبی کے پاس پیغام بھیجا اَور اُسے یَاہوِہ کے بیت المُقدّس کے تیسرے مدخل پر اَپنے پاس بُلایا؛ بادشاہ نے یرمیاہؔ سے فرمایا، ”میں تُم سے کچھ پُوچھنا چاہتا ہُوں، مُجھ سے کچھ بھی پوشیدہ نہ رکھ۔“
15یرمیاہؔ نے صِدقیاہؔ بادشاہ سے کہا، ”اگر مَیں آپ کو جَواب دُوں تو کیا آپ مُجھے مار نہ ڈالیں گے؟ اَور اگر مَیں آپ کو کچھ صلاح بھی دُوں تو آپ میری بات نہ مانیں گے۔“
16لیکن صِدقیاہؔ بادشاہ نے تنہائی میں یرمیاہؔ سے یہ قَسم کھائی: ”زندہ یَاہوِہ کی قَسم جِس نے ہمیں جان بخشی ہے، نہ میں تُمہیں قتل کروں گا، نہ اُن لوگوں کے حوالہ کروں گا جو تمہارے جانی دُشمن ہیں۔“
17تَب یرمیاہؔ نے صِدقیاہؔ سے کہا، ”قادرمُطلق یَاہوِہ بنی اِسرائیل کے خُدا یُوں فرماتے ہیں، ’اگر آپ شاہِ بابیل کے حاکموں کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں گے تو آپ کی جان بخشی جائے گی اَور یہ شہر جَلایا نہ جائے گا اَور آپ اَور آپ کا خاندان زندہ رہے گا۔ 18لیکن اگر آپ شاہِ بابیل کے حاکموں کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کریں گے تو آپ اَور یہ شہر کَسدیوں کے حوالہ کئے جائیں گے اَور وہ اُسے جَلا ڈالیں گے اَور آپ خُود اُن کے ہاتھوں سے بچ کر نکل نہ سکیں گے۔‘ “
19صِدقیاہؔ بادشاہ نے یرمیاہؔ سے فرمایا، ”میں اُن یہُودیوں سے ڈرتا ہُوں جو کَسدیوں سے جا ملے ہیں کیونکہ شاید کَسدی مُجھے اُن کے حوالہ کر دیں اَور وہ مُجھ سے بُرا سلُوک کریں۔“
20یرمیاہؔ نے فرمایا، وہ آپ کو اُن کے حوالہ نہ کریں گے۔ یَاہوِہ کے حُکم پر عَمل کیجئے اَورجو میں کہتا ہُوں وہ کیجئے۔ تَب آپ کا بھلا ہوگا اَور آپ کی جان بچ جائے گی۔ 21لیکن اگر آپ نے اِطاعت قبُول کرنے سے اِنکار کیا، تو یَاہوِہ نے جو کلام مُجھ پر نازل کیا ہے وہ یہ ہے، 22شاہِ یہُودیؔہ کے محل میں بچی ہُوئی تمام عورتیں شاہِ بابیل کے حاکموں کے پاس پہُنچائی جایٔیں گی اَور وہ آپ سے کہیں گی:
” ’تمہارے قریبی دوستوں نے تُمہیں فریب دیا،
اَور وہ تُم پر غالب آ گیٔے۔
اَور جَب تمہارے پاؤں دلدل میں دھنس گیٔے تھے؛
تَب تمہارے دوستوں نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا۔‘
23”تمہاری تمام بیویاں اَور بچّے کَسدیوں کے پاس پہُنچائے جایٔیں گے۔ تُم خُود اُن کے ہاتھ سے بچ نہ سکوگے بَلکہ شاہِ بابیل تُمہیں گِرفتار کر لے گا اَور یہ شہر جَلا دیا جائے گا۔“
24تَب صِدقیاہؔ نے یرمیاہؔ سے فرمایا، ”یہ بات چیت کویٔی جاننے نہ پایٔے ورنہ تُم مارے جاؤگے۔ 25اگر حاکم یہ سُن کر کہ مَیں نے تُم سے بات چیت کی تمہارے پاس آکر پوچھیں، ’ہمیں بتاؤ کہ تُم نے بادشاہ سے کیا فرمایا اَور بادشاہ نے تُم سے کیا فرمایا؛ ہم سے نہ چھُپا ورنہ ہم تُمہیں مار ڈالیں گے۔‘ 26تَب اُن سے کہنا، ’مَیں بادشاہ سے اِلتجا کر رہاتھا کہ وہ مُجھے واپس یُوناتانؔ کے گھر مرنے کے لیٔے نہ بھیجے۔‘ “
27تَب تمام حاکم یرمیاہؔ کے پاس آئے اَور اُس سے دریافت بھی کیا لیکن یرمیاہؔ نے اُنہیں وُہی بتایا جِس کا بادشاہ نے اُسے حُکم دیا تھا۔ اِس لیٔے اُنہُوں نے مزید کچھ نہ فرمایا کیونکہ کسی نے بادشاہ کے ساتھ اُس کی بات چیت نہیں سُنی تھی۔
یروشلیمؔ کا تسخیر ہونا
28اِس طرح یروشلیمؔ تسخیر ہونے تک یرمیاہؔ پہرا کے قَیدخانہ کے صحن میں رہا۔