متی 18:13-23
متی 18:13-23 کِتابِ مُقادّس (URD)
پس بونے والے کی تمثِیل سُنو۔ جب کوئی بادشاہی کا کلام سُنتا ہے اور سمجھتا نہیں تو جو اُس کے دِل میں بویا گیا تھا اُسے وہ شرِیر آ کر چِھین لے جاتا ہے۔ یہ وہ ہے جو راہ کے کنارے بویا گیا تھا۔ اور جو پتّھرِیلی زمِین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سُنتا ہے اور اُسے فی الفَور خُوشی سے قبُول کر لیتا ہے۔ لیکن اپنے اندر جڑ نہیں رکھتا بلکہ چند روزہ ہے اور جب کلام کے سبب سے مُصِیبت یا ظُلم برپا ہوتا ہے تو فی الفَور ٹھوکر کھاتا ہے۔ اور جو جھاڑِیوں میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سُنتا ہے اور دُنیا کی فِکر اور دَولت کا فریب اُس کلام کو دبا دیتا ہے اور وہ بے پَھل رہ جاتا ہے۔ اور جو اچّھی زمِین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سُنتا اور سمجھتا ہے اور پَھل بھی لاتا ہے۔ کوئی سَو گُنا پَھلتا ہے کوئی ساٹھ گُنا کوئی تِیس گُنا۔
متی 18:13-23 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
”اَب بیج بونے والے کی تمثیل کے معنی سُنو: جَب کویٔی آسمانی بادشاہی کا پیغام سُنتا ہے لیکن سمجھتا نہیں تو جو بیج اُس کے دِل میں بویا گیا تھا، شیطان آتا ہے اَور اُسے چھین لے جاتا ہے۔ یہ وُہی بیج ہے جو راہ کے کنارے بویا گیا تھا۔ اَورجو بیج پتھریلی زمین پر گرا، یہ اُس شخص کی مانِند ہے جو کلام کو سُنتے ہی اُسے خُوشی سے قبُول کر لیتا ہے۔ لیکن وہ اُس کے اَندر جڑ نہیں پکڑ پاتا اَور تھوڑے دِنوں تک ہی قائِم رہ پاتاہے۔ کیونکہ جَب کلام کے سبب سے ظُلم یا مُصیبت آتی ہے تو وہ فوراً گِر پڑتا ہے۔ اَور جھاڑیوں میں گِرنے والے بیج سے مُراد وہ ہیں جو کلام کو سُنتے تو ہیں لیکن دُنیا کی فکر اَور دولت کا فریب اُسے دبا دیتے ہیں اَور وہ پھل نہیں لا پاتاہے۔ لیکن اَچھّی زمین میں بوئے گیٔے بیج، وہ لوگ ہیں جو کلام کو سُنتے اَور سمجھتے ہیں اَور پھل لاتے ہیں، کویٔی سَو گُنا، کویٔی ساٹھ گُنا اَور کویٔی تیس گُنا۔“
متی 18:13-23 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
اب سنو کہ بیج بونے والے کی تمثیل کا مطلب کیا ہے۔ راستے پر گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو بادشاہی کا کلام سنتے تو ہیں، لیکن اُسے سمجھتے نہیں۔ پھر ابلیس آ کر وہ کلام چھین لیتا ہے جو اُن کے دلوں میں بویا گیا ہے۔ پتھریلی زمین پر گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے ہی اُسے خوشی سے قبول تو کر لیتے ہیں، لیکن وہ جڑ نہیں پکڑتے اور اِس لئے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے۔ جوں ہی وہ کلام پر ایمان لانے کے باعث کسی مصیبت یا ایذا رسانی سے دوچار ہو جائیں تو وہ برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے تو ہیں، لیکن پھر روزمرہ کی پریشانیاں اور دولت کا فریب کلام کو پھلنے پھولنے نہیں دیتا۔ نتیجے میں وہ پھل لانے تک نہیں پہنچتا۔ اِس کے مقابلے میں زرخیز زمین میں گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام کو سن کر اُسے سمجھ لیتے اور بڑھتے بڑھتے تیس گُنا، ساٹھ گُنا بلکہ سَو گُنا تک پھل لاتے ہیں۔“