رومیوں 1:4-25
رومیوں 1:4-25 کِتابِ مُقادّس (URD)
پس ہم کیا کہیں کہ ہمارے جِسمانی باپ ابرہامؔ کو کیا حاصِل ہُؤا؟ کیونکہ اگر ابرہامؔ اَعمال سے راست باز ٹھہرایا جاتا تو اُس کو فخر کی جگہ ہوتی لیکن خُدا کے نزدِیک نہیں۔ کِتابِ مُقدّس کیا کہتی ہے؟ یہ کہ ابرہامؔ خُدا پر اِیمان لایا اور یہ اُس کے لِئے راست بازی گِنا گیا۔ کام کرنے والے کی مزدُوری بخشِش نہیں بلکہ حق سمجھی جاتی ہے۔ مگر جو شخص کام نہیں کرتا بلکہ بے دِین کے راست باز ٹھہرانے والے پر اِیمان لاتا ہے اُس کا اِیمان اُس کے لِئے راست بازی گِنا جاتا ہے۔ چُنانچہ جِس شخص کے لِئے خُدا بغَیر اَعمال کے راست بازی محسُوب کرتا ہے داؤُد بھی اُس کی مُبارک حالی اِس طرح بیان کرتا ہے۔ کہ مُبارک وہ ہیں جِن کی بدکارِیاں مُعاف ہُوئیں اور جِن کے گُناہ ڈھانکے گئے۔ مُبارک وہ شخص ہے جِس کے گُناہ خُداوند محسُوب نہ کرے گا۔ پس کیا یہ مُبارک بادی مختُونوں ہی کے لِئے ہے یا نامختُونوں کے لِئے بھی؟ کیونکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ابرہامؔ کے لِئے اُس کا اِیمان راست بازی گِنا گیا۔ پس کِس حالت میں گِنا گیا؟ مختُونی میں یا نامختُونی میں؟ مختُونی میں نہیں بلکہ نامختُونی میں۔ اور اُس نے خَتنہ کا نِشان پایا کہ اُس اِیمان کی راست بازی پر مُہر ہو جائے جو اُسے نامختُونی کی حالت میں حاصِل تھا تاکہ وہ اُن سب کا باپ ٹھہرے جو باوُجُود نامختُون ہونے کے اِیمان لاتے ہیں اور اُن کے لِئے بھی راست بازی محسُوب کی جائے۔ اور اُن مختُونوں کا باپ ہو جو نہ صِرف مختُون ہیں بلکہ ہمارے باپ ابرہامؔ کے اُس اِیمان کی بھی پیرَوی کرتے ہیں جو اُسے نامختُونی کی حالت میں حاصِل تھا۔ کیونکہ یہ وعدہ کہ وہ دُنیا کا وارِث ہو گا نہ ابرہامؔ سے نہ اُس کی نسل سے شرِیعت کے وسِیلہ سے کِیا گیا تھا بلکہ اِیمان کی راست بازی کے وسِیلہ سے۔ کیونکہ اگر شرِیعت والے ہی وارِث ہوں تو اِیمان بے فائِدہ رہا اور وعدہ لاحاصِل ٹھہرا۔ کیونکہ شرِیعت تو غَضب پَیدا کرتی ہے اور جہاں شرِیعت نہیں وہاں عدُول حُکمی بھی نہیں۔ اِسی واسطے وہ مِیراث اِیمان سے مِلتی ہے تاکہ فضل کے طَور پر ہو اور وہ وعدہ کُل نسل کے لِئے قائِم رہے۔ نہ صِرف اُس نسل کے لِئے جو شرِیعت والی ہے بلکہ اُس کے لِئے بھی جو ابرہامؔ کی مانِند اِیمان والی ہے۔ وُہی ہم سب کا باپ ہے۔ (چُنانچہ لِکھا ہے کہ مَیں نے تُجھے بُہت سی قَوموں کا باپ بنایا) اُس خُدا کے سامنے جِس پر وہ اِیمان لایا اور جو مُردوں کو زِندہ کرتا ہے اور جو چِیزیں نہیں ہیں اُن کو اِس طرح بُلا لیتا ہے کہ گویا وہ ہیں۔ وہ نااُمّیدی کی حالت میں اُمّید کے ساتھ اِیمان لایا تاکہ اِس قَول کے مُطابِق کہ تیری نسل اَیسی ہی ہو گی وہ بُہت سی قَوموں کا باپ ہو۔ اور وہ جو تقرِیباً سَو برس کا تھا باوُجُود اپنے مُردہ سے بدن اور سارؔہ کے رّحِم کی مُردگی پر لِحاظ کرنے کے اِیمان میں ضعِیف نہ ہُؤا۔ اور نہ بے اِیمان ہو کر خُدا کے وعدہ میں شک کِیا بلکہ اِیمان میں مضبُوط ہو کر خُدا کی تمجِید کی۔ اور اُس کو کامِل اِعتقاد ہُؤا کہ جو کُچھ اُس نے وعدہ کِیا ہے وہ اُسے پُورا کرنے پر بھی قادِر ہے۔ اِسی سبب سے یہ اُس کے لِئے راست بازی گِنا گیا۔ اور یہ بات کہ اِیمان اُس کے لِئے راست بازی گِنا گیا نہ صِرف اُس کے لِئے لِکھی گئی۔ بلکہ ہمارے لِئے بھی جِن کے لِئے اِیمان راست بازی گِنا جائے گا۔ اِس واسطے کہ ہم اُس پر اِیمان لائے ہیں جِس نے ہمارے خُداوند یِسُوعؔ کو مُردوں میں سے جِلایا۔ وہ ہمارے گُناہوں کے لِئے حوالہ کر دِیا گیا اور ہم کو راست باز ٹھہرانے کے لِئے جِلایا گیا۔
رومیوں 1:4-25 اُردو ہم عصر ترجُمہ (UCV)
ہم حضرت اِبراہیمؔ کے بارے میں جو ہمارے جِسمانی باپ ہیں کیا کہیں؟ آخِر حضرت اِبراہیمؔ کو کیا حاصل ہُوا؟ اگر حضرت اِبراہیمؔ اَپنے اعمال کی بِنا پر راستباز ٹھہرائے جاتے تو اُنہیں فخر کرنے کا حق ہوتا لیکن خُدا کے حُضُور میں نہیں۔ کیونکہ کِتاب مُقدّس کیا کہتی ہے؟ ”حضرت اِبراہیمؔ خُدا پر ایمان لایٔے اَور یہ اُن کے واسطے راستبازی شُمار کیا گیا۔“ جَب کویٔی شخص کام کرکے اَپنی اُجرت حاصل کرتا ہے تو اُس کی اُجرت بخشش نہیں بَلکہ اُس کا حق سَمجھی جاتی ہے۔ مگر جو شخص اَپنے کام پر نہیں بَلکہ بےدینوں کو راستباز ٹھہرانے والے خُدا پر ایمان رکھتا ہے، اُس کا ایمان اُس کے لیٔے راستبازی شُمار کیا جاتا ہے۔ پس جِس شخص کو خُدا اُس کے کاموں کا لِحاظ کیٔے بغیر راستباز ٹھہراتا ہے، داؤؔد بھی اُس کی مُبارک حالی کا ذِکر اِس طرح کرتے ہیں، ”مُبارک ہیں وہ لوگ جِن کی خطائیں بخشی گئیں، اَور جِن کے گُناہوں کو ڈھانکا گیا۔ مُبارک ہے وہ آدمی جِن کے گُناہ خُداوؔند کبھی حِساب میں نہیں لائے گا۔“ کیا یہ مُبارکبادی صِرف اُن کے لیٔے ہے جِن کا ختنہ ہو چُکاہے یا اُن کے لیٔے بھی ہے جِن کا ختنہ نہیں ہُوا؟ کیونکہ ہم کہتے آئے ہیں کہ حضرت اِبراہیمؔ کا ایمان اُن کے واسطے راستبازی شُمار کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کِس حالت میں راستباز گِنا گیا۔ ختنہ کرانے سے پہلے یا ختنہ کرانے کے بعد؟ یہ اُس کے ختنہ کرانے سے پہلے کی بات تھی نہ کہ بعد کی۔ جَب حضرت اِبراہیمؔ کا ختنہ نہیں ہُوا تھا، خُدا نے اُس کے ایمان کے سبب سے اُسے راستباز ٹھہرایا تھا۔ بعد میں اُس نے ختنہ کا نِشان پایا جو اُس کی راستبازی پر گویا خُدا کی مُہر تھی۔ یُوں حضرت اِبراہیمؔ سَب کا باپ ٹھہرے جِن کا ختنہ تو نہیں ہُوا مگر وہ ایمان لانے کے باعث راستباز گنے جاتے ہیں۔ اَور وہ اُن کا بھی باپ ٹھہرتا ہے جِن کا ختنہ ہو چُکاہے اَور یہی نہیں بَلکہ وہ ہمارے باپ حضرت اِبراہیمؔ کے اُس ایمان کی پیروی کرتے ہیں جو اُسے اُس کے ختنہ سے پہلے ہی حاصل تھا۔ یہ وعدہ جو حضرت اِبراہیمؔ اَور اُن کی نَسل سے کیا گیا تھا کہ وہ دُنیا کے وارِث ہُوں گے، شَریعت پر عَمل کرنے کی بِنا پر نہیں بَلکہ اُن کے ایمان کی راستبازی کے وسیلے سے کیا گیا تھا۔ کیونکہ اگر اہلِ شَریعت ہی دُنیا کے وارِث ٹھہرائے جاتے تو ایمان کا کویٔی مطلب ہی نہ ہوتا اَور خُدا کا وعدہ بھی فُضول ٹھہرتا۔ بات یہ ہے کہ جہاں شَریعت ہے وہاں غضب بھی ہے اَور جہاں شَریعت نہیں وہاں شَریعت کا عُدول بھی نہیں۔ چنانچہ یہ وعدہ ایمان کی بِنا پر دیا جاتا ہے تاکہ بطور فضل سمجھا جائے اَور حضرت اِبراہیمؔ کی کل نَسل کے لیٔے ہو، صِرف اُن ہی کے لیٔے نہیں جو اہلِ شَریعت ہیں بَلکہ اُن کے لیٔے بھی جو ایمان لانے کے لِحاظ سے اُس کی نَسل ہیں کیونکہ حضرت اِبراہیمؔ ہم سَب کے باپ ہیں۔ جَیسا کہ کِتاب مُقدّس میں لِکھّا ہے: ”میں نے تُمہیں بہت سِی قوموں کا باپ مُقرّر کیا ہے۔“ وہ اُس خُدا کی نگاہ میں ہمارا باپ ہے جِس پر وہ ایمان لایا۔ وہ خُدا جو مُردوں کو زندہ کرتا ہے اَور غَیر مَوجُود اَشیا کو یُوں بُلا لیتا ہے گویا وہ مَوجُود ہیں۔ حضرت اِبراہیمؔ نااُمّیدی کی حالت میں بھی اُمّید کے ساتھ ایمان لایٔے اَور بہت سِی قوموں کا باپ مُقرّر کیٔے گیٔے جَیسا کہ اُن سے کہا گیا تھا، ”تمہاری نَسل اَیسی ہی ہوگی۔“ وہ تقریباً سَو بَرس کے تھے اَور اَپنے بَدن کے مُردہ ہو جانے کے باوُجُود اَور یہ جانتے ہویٔے بھی کہ سارہؔ کا رحم بھی مُردہ ہو چُکاہے، حضرت اِبراہیمؔ کا ایمان کمزور نہ ہُوا۔ نہ ہی بے اِعتقاد ہوکر حضرت اِبراہیمؔ نے خُدا کے وعدہ پر شک کیا بَلکہ ایمان میں مضبُوط ہوکر خُدا کی تمجید کی۔ حضرت اِبراہیمؔ کامِل یقین تھا کہ جِس خُدا نے وعدہ کیا ہے وہ اُسے پُورا کرنے کی بھی قُدرت رکھتا ہے۔ ”اِسی واسطے حضرت اِبراہیمؔ کا ایمان اُن کے واسطے راستبازی شُمار کیا گیا۔“ اَور یہ الفاظ ”اُن کے واسطے راستبازی شُمار کیٔے گیٔے“ یہ صِرف حضرت اِبراہیمؔ کے لیٔے نہیں لکھے گیٔے، بَلکہ ہمارے لیٔے بھی جِن کے لیٔے ایمان راستبازی گِنا جائے گا۔ اِس لیٔے کہ ہم بھی خُدا پر ایمان لایٔے ہیں جِس نے ہمارے خُداوؔند عیسیٰ کو مُردوں میں سے زندہ کیا۔ حُضُور عیسیٰ ہمارے گُناہوں کے لیٔے موت کے حوالہ کیٔے گیٔے اَور پھر زندہ کیٔے گیٔے تاکہ ہم راستباز ٹھہرائے جایٔیں۔
رومیوں 1:4-25 ہولی بائبل کا اردو جیو ورژن (URDGVU)
ابراہیم جسمانی لحاظ سے ہمارا باپ تھا۔ تو راست باز ٹھہرنے کے سلسلے میں اُس کا کیا تجربہ تھا؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ شریعت پر عمل کرنے سے راست باز ٹھہرتا تو وہ اپنے آپ پر فخر کر سکتا تھا۔ لیکن اللہ کے نزدیک اُس کے پاس اپنے آپ پر فخر کرنے کا کوئی سبب نہ تھا۔ کیونکہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، ”ابراہیم نے اللہ پر بھروسا رکھا۔ اِس بنا پر اللہ نے اُسے راست باز قرار دیا۔“ جب لوگ کام کرتے ہیں تو اُن کی مزدوری کوئی خاص مہربانی قرار نہیں دی جاتی، بلکہ یہ تو اُن کا حق بنتا ہے۔ لیکن جب لوگ کام نہیں کرتے بلکہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جو بےدینوں کو راست باز قرار دیتا ہے تو اُن کا کوئی حق نہیں بنتا۔ وہ اُن کے ایمان ہی کی بنا پر راست باز قرار دیئے جاتے ہیں۔ داؤد یہی بات بیان کرتا ہے جب وہ اُس شخص کو مبارک کہتا ہے جسے اللہ بغیر اعمال کے راست باز ٹھہراتا ہے، ”مبارک ہیں وہ جن کے جرائم معاف کئے گئے، جن کے گناہ ڈھانپے گئے ہیں۔ مبارک ہے وہ جس کا گناہ رب حساب میں نہیں لائے گا۔“ کیا یہ مبارک بادی صرف مختونوں کے لئے ہے یا نامختونوں کے لئے بھی؟ ہم تو بیان کر چکے ہیں کہ ابراہیم ایمان کی بنا پر راست باز ٹھہرا۔ اُسے کس حالت میں راست باز ٹھہرایا گیا؟ ختنہ کرانے کے بعد یا پہلے؟ ختنے کے بعد نہیں بلکہ پہلے۔ اور ختنہ کا جو نشان اُسے ملا وہ اُس کی راست بازی کی مُہر تھی، وہ راست بازی جو اُسے ختنہ کرانے سے پیشتر ملی، اُس وقت جب وہ ایمان لایا۔ یوں وہ اُن سب کا باپ ہے جو بغیر ختنہ کرائے ایمان لائے ہیں اور اِس بنا پر راست باز ٹھہرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ختنہ کرانے والوں کا باپ بھی ہے، لیکن اُن کا جن کا نہ صرف ختنہ ہوا ہے بلکہ جو ہمارے باپ ابراہیم کے اُس ایمان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں جو وہ ختنہ کرانے سے پیشتر رکھتا تھا۔ جب اللہ نے ابراہیم اور اُس کی اولاد سے وعدہ کیا کہ وہ دنیا کا وارث ہو گا تو اُس نے یہ اِس لئے نہیں کیا کہ ابراہیم نے شریعت کی پیروی کی بلکہ اِس لئے کہ وہ ایمان لایا اور یوں راست باز ٹھہرایا گیا۔ کیونکہ اگر وہ وارث ہیں جو شریعت کے پیروکار ہیں تو پھر ایمان بےاثر ٹھہرا اور اللہ کا وعدہ مٹ گیا۔ شریعت اللہ کا غضب ہی پیدا کرتی ہے۔ لیکن جہاں کوئی شریعت نہیں وہاں اُس کی خلاف ورزی بھی نہیں۔ چنانچہ یہ میراث ایمان سے ملتی ہے تاکہ اِس کی بنیاد اللہ کا فضل ہو اور اِس کا وعدہ ابراہیم کی تمام نسل کے لئے ہو، نہ صرف شریعت کے پیروکاروں کے لئے بلکہ اُن کے لئے بھی جو ابراہیم کا سا ایمان رکھتے ہیں۔ یہی ہم سب کا باپ ہے۔ یوں اللہ کلامِ مُقدّس میں اُس سے وعدہ کرتا ہے، ”مَیں نے تجھے بہت قوموں کا باپ بنا دیا ہے۔“ اللہ ہی کے نزدیک ابراہیم ہم سب کا باپ ہے۔ کیونکہ اُس کا ایمان اُس خدا پر تھا جو مُردوں کو زندہ کرتا اور جس کے حکم پر وہ کچھ پیدا ہوتا ہے جو پہلے نہیں تھا۔ اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی، پھر بھی ابراہیم اُمید کے ساتھ ایمان رکھتا رہا کہ مَیں ضرور بہت قوموں کا باپ بنوں گا۔ اور آخرکار ایسا ہی ہوا، جیسا کلامِ مُقدّس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ”تیری اولاد اِتنی ہی بےشمار ہو گی۔“ اور ابراہیم کا ایمان کمزور نہ پڑا، حالانکہ اُسے معلوم تھا کہ مَیں تقریباً سَو سال کا ہوں اور میرا اور سارہ کے بدن گویا مُردہ ہیں، اب بچے پیدا کرنے کی عمر سارہ کے لئے گزر چکی ہے۔ توبھی ابراہیم کا ایمان ختم نہ ہوا، نہ اُس نے اللہ کے وعدے پر شک کیا بلکہ ایمان میں وہ مزید مضبوط ہوا اور اللہ کو جلال دیتا رہا۔ اُسے پختہ یقین تھا کہ اللہ اپنے وعدے کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اُس کے اِس ایمان کی وجہ سے اللہ نے اُسے راست باز قرار دیا۔ کلامِ مُقدّس میں یہ بات کہ اللہ نے اُسے راست باز قرار دیا نہ صرف اُس کی خاطر لکھی گئی بلکہ ہماری خاطر بھی۔ کیونکہ اللہ ہمیں بھی راست باز قرار دے گا اگر ہم اُس پر ایمان رکھیں جس نے ہمارے خداوند عیسیٰ کو مُردوں میں سے زندہ کیا۔ ہماری ہی خطاؤں کی وجہ سے اُسے موت کے حوالے کیا گیا، اور ہمیں ہی راست باز قرار دینے کے لئے اُسے زندہ کیا گیا۔