38
حِزقیاہؔ کی بیماری
1اُن دِنوں حِزقیاہؔ بیمار ہو گیا یہاں تک کہ مرنے کی نَوبَت آ گئی۔ تَب یَشعیاہ بِن آموصؔ نبی اُن سے مُلاقات کرنے آئے اَور حِزقیاہؔ سے فرمایا، ”یَاہوِہ یُوں فرماتے ہیں کہ تُم اَپنے گھرانے کو سیدھا کرو کیونکہ تُم مرنے والے ہو اَور اِس بیماری سے شفایاب ہونا ممکن نہیں ہے۔“
2تَب یہ سُن کر حِزقیاہؔ نے اَپنا مُنہ دیوار کی طرف کرکے یَاہوِہ سے یہ دعا کی، 3”اَے یَاہوِہ یاد فرمائیں کہ مَیں آپ کے حُضُور مُکمّل جان نثاری اَور پُوری وفاداری سے چلتا رہا ہُوں اَور مَیں نے وُہی کیا ہے جو آپ کی نظروں میں دُرست ہے۔“ اَور تَب حِزقیاہؔ زار زار رونے لگا۔
4تَب یَاہوِہ کا یہ کلام یَشعیاہ پر نازل ہُوا: 5”جا اَور حِزقیاہؔ سے کہہ، ’یَاہوِہ تمہارے آباؤاَجداد داویؔد کے خُدا یُوں فرماتے ہیں، مَیں نے تیری دعا سُنی اَور تیرے آنسُو دیکھے، مَیں تیری عمر پندرہ بَرس اَور بڑھا دُوں گا 6اَور مَیں تُجھے اَور اِس شہر کو شاہِ اشُور کے ہاتھ سے بچاؤں گا اَور مَیں اِس شہر کی حمایت کروں گا۔
7” ’اَور یہ تیرے لیٔے یَاہوِہ کا نِشان ہے اَپنا وعدہ پُورا کرےگا۔ 8مَیں سُورج کے ڈھلے ہُوئے سایہ کو آحازؔ کی دھوپ گھڑی کے مُطابق دس درجہ پیچھے ہٹا لُوں گا۔‘ “ چنانچہ وہ سایہ جو ڈھل چُکاتھا، دس درجہ پیچھے لَوٹ گیا۔
9یہُودیؔہ کے بادشاہ حِزقیاہؔ کی تحریر جو اُس کی بیماری اَور شفا یابی کے بعد لکھی گئی:
10مَیں نے کہا: ”اَب جَب کہ میری زندگی شباب پر ہے
کیا مُجھے موت کے پھاٹکوں میں سے گزرنا ہوگا
اَور میری زندگی کے باقی سالوں کو لُوٹ لیا جائے گا؟“
11مَیں نے کہا: ”مَیں یَاہوِہ کو پھر نہ دیکھ پاؤں گا،
ہاں یَاہوِہ کو زندوں کی زمین پر نہ دیکھ پاؤں گا؛
نہ ہی نَوع اِنسان پر نگاہ کر سکوں گا،
اَور نہ اُن لوگوں کے ساتھ رہ سکوں گا جو اَب اِس دُنیا میں بستے ہیں۔
12میرا گھر چرواہے کے خیمہ کی طرح
گرا دیا گیا اَور مُجھ سے لے لیا گیا۔
ایک جُلاہے کی طرح مَیں نے اَپنی زندگی کو لپیٹ لیا ہے،
اَور اُس نے مُجھے کرگھے سے کاٹ کر الگ کر دیا ہے؛
دِن اَور رات تُو میرا خاتِمہ کرتا رہا۔
13مَیں نے صُبح تک صبر سے کام لیا،
لیکن شیرببر کی طرح اُس نے میری تمام ہڈّیاں توڑ ڈالیں؛
صُبح سے شام تک تُونے میرا خاتِمہ کر ڈالا۔
14میں ابابیل اَور سارس کی طرح چیں چیں کرتا رہا،
اَور غمزدہ کبُوتر کی مانند کراہتا رہا۔
میری آنکھیں اُوپر کی طرف دیکھتے دیکھتے تھک گئیں۔
میں ڈر گیا ہُوں، اَے خُداوؔند، میری مدد کے لئے آیئے۔“
15لیکن مَیں کیا کہہ سَکتا ہُوں؟
اُسی نے مُجھ سے کہا اَور یہ کام اُسی کا ہے۔
اَپنی اِس تلخی جان کے باعث
میں عمر بھر حلیمی سے چلتا رہُوں گا۔
16اَے خُداوؔند، اِن ہی چیزوں سے اِنسان کی زندگی ہے؛
اَور میری رُوح بھی اِن ہی میں زندگی پاتی ہے۔
آپ نے مُجھے شفا بخشی
اَور مُجھے جینے دیا۔
17جو تکلیف مَیں نے برداشت کی
یقیناً یہ میرے حق میں مفید ثابت ہُوئی۔
آپ نے اَپنی مَحَبّت میں
مُجھے تباہی کے گڑھے سے بچا لیا؛
آپ نے میرے تمام گُناہ
اَپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دئیے۔
18کیونکہ قبر تیری سِتائش نہیں کر سکتی،
اَور موت تیری تعریف کے نغمہ نہیں گا سکتی؛
جو پاتال میں اُترگئے
وہ تیری سچّائی کی اُمّید نہیں رکھ سکتے۔
19زندہ، ہاں صِرف زندہ ہی تیری سِتائش کریں گے،
جَیسا کہ میں آج کر رہا ہُوں؛
والدین اَپنے بچّوں سے
تیری وفاداری کا ذِکر کرتے ہیں۔
20یَاہوِہ مُجھے نَجات دے گا،
اِس لیٔے ہم عمر بھر یَاہوِہ کے بیت المُقدّس میں
تار والے سازوں کے ساتھ
نغمہ سرائی کریں گے۔
21یَشعیاہ نے کہاتھا، ”اَنجیر کا لیپ بناؤ اَور اُسے پھوڑے پر لگاؤ تو وہ شفا پایٔےگا۔“
22حِزقیاہؔ نے پُوچھا تھا، ”اِس کا نِشان کیا ہے کہ میں یَاہوِہ کے بیت المُقدّس میں جا پاؤں گا؟“