6
ایُّوب
1تَب ایُّوب نے جَواب دیا:
2”کاش کہ میری تکلیف کا اَندازہ لگایا جاتا
اَور میری ساری مُصیبت ترازو میں تولی جاتی!
3یقیناً وہ سمُندر کی ریت سے زِیادہ وزنی ہوتی،
مُجھے میرے جذبات نے بولنے پر مجبُور کر دیا ہے۔
4قادرمُطلق کے تیر مُجھ میں پیوست ہیں،
میری رُوح اُن کا زہر پی رہی ہے۔
خُدا کی دہشت میرے خِلاف صف آرا ہے
5جَب گورخر کو گھاس مِل جاتی ہے تو کیا اُس کا رینکنا بند نہیں ہو جاتا؟
یا بَیل کے پاس چارا ہو تو کیا اُس کا ڈکارنا موقُوف نہیں ہو جاتا؟
6کیا پھیکی چیز بغیر نمک کے کھائی جا سکتی ہے،
یا اَنڈے کی سفیدی میں کویٔی مزہ ہوتاہے۔
7میں اُس کھانے کو چھُونا بھی پسند نہ کروں گا،
اَیسی غِذا سے مُجھے گھِن آتی ہے۔
8”کاش کہ میری اِلتجا سُنی جاتی،
اَور خُدا میری اُمّید بر لاتا۔
9کہ خُدا مُجھے کُچل ڈالنے پر راضی ہوتا،
اَور اَپنا ہاتھ بڑھاتا اَور مُجھے ختم کر دیتا۔
10تاکہ مُجھے یہ تسلّی تو ہوتی،
کہ شدید درد کے باوُجُود میں خُوش رہا۔
اَور مَیں نے قُدُّوس خُدا کی باتوں کو ٹھکرایا نہیں۔
11”مُجھ میں اِس قدر ہمّت کہاں کہ اَب بھی کویٔی اُمّید رکھوں،
اَور کس توقع پر صبر کرتا رہُوں۔
12کیا مُجھ میں چٹّان کی سِی قُوّت ہے
یا میرا جِسم کانسے کا ہے؟
13اَب جَب کہ میں کامرانی سے محروم کر دیا گیا ہُوں
تو مُجھ میں اُتنی ہمّت کہاں کہ اَپنی مدد آپ کر سکوں۔
14”مایوس اِنسان چاہتاہے کہ اُس کے دوست مہربان رہیں،
خواہ اُس کے دِل سے قادرمُطلق کا خوف جاتا رہے۔
15لیکن میرے بھایٔی برساتی نالوں کی طرح ناقابلِ اِعتبار ہیں،
بَلکہ اَیسا دریا جو لبریز ہو جاتا ہے۔
16جَب برف پگھلتی ہے تو اُن کا پانی مَیلا ہو جاتا ہے،
اَور اُن میں طغیانی آجاتی ہے۔
17لیکن وہ خشک موسم میں غائب ہو جاتے ہیں،
اَور گرمیوں میں سُوکھ جاتے ہیں۔
18قافلے جو اَپنی راہ بدل لیتے ہیں،
اَور ویرانہ میں جا کر غائب ہو جاتے ہیں۔
19تیماؔ کے شہری کارواں پانی کی تلاش میں ہیں،
شیبا نامی جگہ کے سوداگر اَپنے سفر کے دَوران اُمّید لگائے بیٹھے ہیں۔#6:19 خیال کیا جاتا ہے کہ تیما خلیج عقبہ کے سَر کے جُنوب مشرق میں ایک نخلستان ہے۔ یَشع 21:14؛ یرم 25:23 بھی دیکھیں۔
20اُنہیں پُورا یقین تھا لیکن اُنہیں شرمندہ ہونا پڑا،
وہ وہاں پہُنچے تو صحیح لیکن مایوسی سے دوچار ہُوئے۔
21اَب تُم نے بھی ثابت کر دیا کہ تُم کسی کام کے نہیں،
تُم میری مُصیبت دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے ہو۔
22کیا مَیں نے کبھی کہا، ’میری خاطِر کچھ دو؟
یا اَپنے مال میں سے میرے لیٔے کسی کو رشوت دو۔
23مُجھے دُشمن کے ہاتھ سے بچالو،
سنگدلوں کے شکنجہ سے مُجھے رِہائی دِلاؤ؟‘
24”مُجھے سمجھاؤ تو میں مان بھی جاؤں گا،
مُجھے بتاؤ کہ مَیں نے کہاں غلطی کی۔
25سچّی باتیں بڑی تکلیف دہ ہوتی ہیں!
لیکن تُم دلیلوں سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟
26کیا یہ کہ میری باتیں غلط ہیں؟
یا ایک مایوس اِنسان کے الفاظ کی کویٔی حقیقت نہیں؟
27تُم تو یتیم پر قُرعہ ڈالنے سے بھی نہ ہچکچاؤگے
اَور اگر اَپنے دوست کا سَودا کرنا پڑا تو وہ بھی کر گزروگے۔
28”لیکن اَب براہِ کرم مُجھ پر نگاہ کرو،
کیا مَیں تمہارے مُنہ پر جھُوٹ بولُوں گا؟
29رحم کرو، اِنصاف سے کام لو،
ایک بار پھر سوچ لو کیونکہ میری راستبازی کا اِمتحان لیا جا رہاہے۔
30کیا میرے لبوں پر کویٔی مکر کی بات ہے؟
کیا مُجھے اِتنی بھی سمجھ نہیں کہ بدی کو پہچان سکوں؟