YouVersion Logo
تلاش

ذہن کا میدانِ جنگ مسیحی کتابچہنمونہ

ذہن کا میدانِ جنگ مسیحی کتابچہ

1 دن 14 میں سے

ہوشیاری سے بنایا گیا منصوبہ 

کیونکہ ہمیں خون اور گوشت سے کشتی نہیں کرنا ہے [صرف جسمانی مخالفین سےمقابلہ کرنا] بلکہ حکومت والوں اور اخیتار والوں اور اس دنیا کی [حاکم روحیں جو] تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی ان روحانی فوجوں سے جو[مافوق الفطرت] آسمانی مقاموں میں ہیں۔ (افسیوں ۶ : ۱۲)

’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ ہیلن نے چیختےہوئے کہا۔ ’’تم کس طرح ایسا کام کرسکتے ہو؟‘‘

ٹام نے بے چارگی سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ اس سے حرامکاری سرزد ہوئی تھی، اب اُسے بدکاری کے اس کام کا نتیجہ بھگتنا پڑ رہا تھا، اس نے اپنی بیوی سے معافی مانگی۔

’’لیکن تم جانتے تھے کہ یہ غلط کام ہے‘‘ اس کی بیوی نے کہا۔ ’’تم جانتے تھے کہ یہ ہماری ازدواجی زندگی کے ساتھ بے وفائی ہے۔‘‘

’’میں نے یہ کام جان بوجھ کر نہیں کیا‘‘ ٹام نے روتے ہوئے کہا۔

ٹام جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کچھ غلط قدم اُٹھا رہا ہے، لیکن اس نے ان اقدامات کے نتائج پر غور نہیں کیا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹہ معافی مانگنے کے بعد اس نے ایک ایسی بات کہی جس سے ہیلن کو کچھ تسلّی ملی اور وہ سمجھ گئی اور آخر کار اس نے اپنے شوہرکو معاف کردیا۔

’’حرامکاری کرنے سے پہلے بھی میں نے سینکٹروں طریقوں سے تم سے بے وفائی کی ہے۔‘‘ اس نے اپنی بیوی سے اپنے اور اس کے رویے کے بارے میں بات کی کہ وہ دونوں مصروفیت کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ معیاری وقت نہیں گزاررہے تھے، وہ بے جا تنقید کرتا تھا، اس کی بیوی کا خشک رویہ اوراس کی بات نہ سننا جب وہ اپنے آفس کئے مسائل کے بارے میں اس سے بات کرتا تھا۔ ’’یہ باتیں تو معمولی ہیں، اورہمیشہ معمولی باتیں ہی ہوتی ہیں‘‘ اُس نے کہا۔ ’’کم از کم شروع میں تو ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘

بالکل اِسی طرح ابلیس انسانوں کی زندگی میں کام کرتا ہے۔ وہ بڑی چالاکی سے بنائے گئے منصوبہ کے تحت ہماری سوچوں پر حملہ شروع کرتا ہے شکایت، بے اطمینانی، بڑبڑاہٹ، شکوک، خوف اور کشمکش کو استعمال کرتے ہوئے۔ وہ دھیرے دھیرے اور احتیاط سے آگے بڑھتا ہے (کیونکہ ہوشیاری سے کی گئی منصوبہ بندی میں وقت لگتا ہے)۔

ٹام نے کہا کہ اُسے ہیلن کی سچّی مُحبّت پر شک ہونا شروع ہوگیا تھا۔ وہ اس کی کوئی بات نہیں سنتی تھی، اور اکثر جب وہ اچھے موڈ میں اس کے پاس آتا تھا تو اس پر کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کرتی تھی۔ اس نے ان باتوں پرغورکرنا شروع کردیا۔ جب بھی وہ اس کی پسند کے برخلاف کوئی کام کرتی وہ اسے یاد رکھتا تھا۔ وہ ان تمام باتوں کو اپنی بے چینی کی یاد داشت میں جمع کرلیتا تھا۔

اس کے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون نےان باتوں کو سُنا اوراپنی ہمدردی کا اظہا رکیا۔ ایک بار اس نے کہا ’’ تم جیسے گرم جوش، فکرکرنے والے شخص پر ہیلن کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ (ابلیس اس میں بھی کام کررہا تھا۔) ہر بار جب ٹام غلط راستے پر ایک قدم آگے بڑھاتا تو یہ جواز پیش کرتا تھا: جب ہیلن میری بات نہیں سنے گی تو اور لوگ ہیں جو میری بات سنیں گے۔ اگرچہ اس نے خود کلامی کے دوران لوگ کا لفظ استعمال کیا لیکن دراصل وہ اس خاتون کے بارے میں سوچ رہا تھا جو اس کے ساتھ کام کرتی تھی۔

اس خاتون نے اس کی بات سنی۔ کئی ہفتہ کے بعد ایسا ہوا کہ اس نے اسے گلے لگایا اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خواہش کی کہ کاش اسے اپنی بیوی سے ایسی ہی توجہ ملے۔ یہ ایک بے ضررتعلق تھا ۔۔۔۔۔۔ یا ایسا لگتا تھا۔ ٹام کبھی یہ سمجھ نہیں پایا کہ ابلیس آہستگی سے اپنا کام کرتا ہے اسے کوئی جلدی نہیں ہے۔ وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں وقت صرف کرتا ہے۔ وہ انسانوں کے سامنے یک دم کوئی بڑی آزمائش لے کر نہیں آتا۔ اس کے بجائے دشمن ہمارے سوچوں میں چھوٹی باتوں سے شروع کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ چھوٹی بے اطمینانی، چھوٹی خواہشات ۔۔۔۔۔۔ اور وہ یہاں سے کام شروع کرتا ہے۔

ٹام کی کہانی ایک بیالیس سالہ خاتون کی کہانی سے ملتی جلتی ہے جو ایک کمپنی میں محاسب (اکاوٗنٹنٹ) تھی اوراس نے تقریباً تین لاکھ ڈالر اپنی آرگنائزیشن سے چراےٗ ۔ اس نے کہا ’’پہلی بار میں نے صرف بارہ ڈالر لئے تھے۔ مجھے کریڈٹ کارڈ کا بل ادا کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ میں یہ واپس کردوں گی۔‘‘ لیکن کسی نے اس کی یہ چوری نہیں پکڑی اوردوماہ کے بعد اس نے پھر سے ’’ادھار‘‘ لیا۔

جب انہوں نے اسے پکڑا وہ کمپنی دیوالیہ ہونے کے دہانے پرکھڑی تھی۔ ’’میرا مقصد کسی کے ساتھ غلط کرنا یا کی کو نقصان پہنچانا نہیں تھا‘‘ اس نے کہا۔ اس کا کوئی بڑا غبن کرنے کا ارادہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ تو بس تھوڑے سے پیسے لے لیتی تھی۔ مدعی نے کہا کہ وہ تقریباً بیس سال سے کمپنی سے پیسے چرا رہی تھی۔

ابلیس اس طریقہ سے کام کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ دھیرے دھیرے، محنت سے اور معمولی طریقوں سے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ براہٗ راست کوئی حملہ یا سامنے سے وار کرے۔ ابلیس کو صرف ایک کھلا راستہ چاہیے ۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک ایسا موقع جس سے وہ ناپاک، خود غرض سوچوں کو ہمارے ذہن میں ڈال دے۔ اگر ہم ان کو باہر نہیں نکالیں گے وہ ہمارے اندر بس جائیں گے۔ اوراس طرح وہ اپنے بُرے، تباہ کن منصوبوں پرعمل کرتا رہے گا۔

ہمیں ان غلط خیالات کو اپنے دماغوں میں بسنے نہیں دینا ہے۔ پولس رسول نے لکھا کہ ’’اس لئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار...قلعوں کو ڈھا دینے کے قابل ہیں... [ہم] تصورات اور ہرایک اُونچی چیز کو جو خُدا کی پہچان کے بَرخالف سر اُٹھائے ہوئے ہے ڈھا دیتے ہیں اور ہر ایک خیال کو قید کرکے مسیح کا فرمانبردار بنادیتے ہیں...‘‘ (2 کرنتھیوں 10 : 4۔5)۔

خُداوند یسوع میں تیرے نام سے میں فتح کے لئے پکارتا ہوں۔ مجھے اس قابل کر ہر خیال کو تیرے تابع کردوں۔ میری مدد کر کہ میں ابلیس کی باتوں کو اجازت نہ دوں کہ وہ میرے دماغ میں بسیرا کریں اور میری فتح کو چرا لے جائیں۔ آمین 

دِن 2

مطالعاتی منصوبہ کا تعارف

ذہن کا میدانِ جنگ مسیحی کتابچہ

یہ کتابچہ آپ کو اُمید کے کلام سے لیس کردے گا تاکہ آپ غصّہ، اُلجھن، الزام، خوف، شک ... اور اس کے علاوہ بےشمار باتوں پر فتح پاسکیں۔ یہ پیغامات دشمن کے اس منصوبہ کو بے نقاب کرنے میں جو وہ آپ کو الجھانے اور آپ سےجھوٹ بولنے کے لئے بناتا ہے، سوچ کے تباہ کن سلسلہ کو روکنے، اپنی سوچ کو تبدیل کرنے میں کامیابی پانے، قوت حاصل کرنے

More

ہم یہ منصوبہ مہیا کرنے پر جوائس میئر کی وزارتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے۔ مزید معلومات کے لئے ، براہ کرم ملاحظہ کریں: https://tv.joycemeyer.org/urdu/