ذہن کا میدانِ جنگ مسیحی کتابچہنمونہ
’’یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا!‘‘
میں آج کے دن آسمان اور زمین کوتمہارے خلاف گواہ بناتا ہوں کہ میں نے زندگی اور موت کو اور برکت اور لعنت کو تیرے آگے رکھا ہے پس تو زندگی کو اختیار کر کہ تو بھی جیتا رہے اور تیری اولاد بھی۔ (استثنا ۳۰ :۱۹)
جب خُدا ہمارے بُرے رویے پر کام کرنا شروع کرتا ہے تو یہ کہنا آسان ہوتا ہے کہ ،یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا‘‘ جب کہ یہ اِقرار کرنے کے لئے حقیقی جرات اور اِیمان کی ضرورت ہوتی ہے کہ ’’میں ذمہ داری کو قبول کرتا/کرتی ہوں اور اپنی زندگی کو ٹھیک کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
آنکھیں چرانا یعنی مسائل کا سامنا نہ کرنا، ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنی بُری عادتوں کا اقرار نہیں کریں گے تواس سے وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ ہم انبار جمع کرلیں گے۔ ہم ان سے منہ موڑ لیتے ہیں اور جب تک ہم ایسا کرتے ہیں وہ ہم پر حاوی رہتی ہیں۔ زندہ دفن کئے جانے والے مسائل ختم نہیں ہوتے۔
بہت سال تک میں بچپن میں ہونے والے جنسی استحصال کے بارے میں کچھ کرنے سے انکار کرتی رہی۔ میرے والد نے مجھے استحصال کا نشانہ بنایا پس جس دِن میں اٹھارہ سال کی ہوئی میں نے اپنا گھر چھوڑ دیا۔ میں نے سوچا کہ گھر چھوڑکر میں اس مسئلہ سے پیچھا چھڑا لوں گی، لیکن میں یہ نہیں جانتی تھی کہ مسئلہ میری رُوح میں تھا۔ یہ میرے خیالات، رویے اور باتوں میں تھا۔ اِس کا اَثر میرے کاموں اور میرے تمام تعلقات پر ہوا۔ میں نے اپنے ماضی کو دفن کر دیا اور ایک بڑا پہاڑ بنا ڈالا۔ ہمیں ماضی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ دراصل خُدا کے کا کلام ہمیں اسے بھولنے اور اس سے دستبردار ہونے کے لئے ابھارتا ہے۔ اوراس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ان کے نتائج سے آنکھیں چرا لیں اور ایسا ظاہر کریں کہ ہمیں ان سے کوئی تکلیف نہیں پہنچ رہی۔
میرے اندر منفی رویے اور بُری عادات موجود تھیں۔ میں بہت سے بہانے تراش لیتی تھی۔ میں اپنے ماضی کے مسائل کے بارے میں کچھ بھی کرنا نہیں چاہتی تھی؛ میں اپنے لئے افسوس محسوس نہیں کرتی تھی اورکہتی تھی کہ، ’’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی۔ میرے استحصال میں میرا کوئی قصورنہیں ہے۔‘‘ اورگو یہ میرا قصور نہیں تھا۔ لیکن یہ میری ذمہ داری تھی کہ میں خُدا کو مدد کرنے کاموقع دوں تاکہ اس استحصال کے نتیجہ میں مجھے جن باتوں کو تجربہ کرنا پڑ رہا تھا اُن تمام بندھنوں پر فتح پاوٗں۔
خُدا نے مجھے آزاد کرنا اورمیرے اُن تمام بُرے خیالات پرکام کرنا شروع کردیا جن کو میں نے قبول اور اپنے اُوپر حاوی کیا ہوا تھا۔ میری زندگی تبدیل ہونے سے پہلے میری سوچوں کو تبدیل ہونے کی ضرورت تھی۔ شروع میں تو میں اپنے خیالات کے بارے کوئی ذمہ داری قبول کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ میرے خیالات میرے اختیار میں نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ خیالات خود میرے ذہن میں آجاتے ہیں! آخر کار میں نے جان لیا کہ میں اپنے خیالات کا چناوٗ کرسکتی ہوں اور اپنی مرضی اور کسی مقصد کے تحت سوچ سکتی ہوں۔ میں نے جانا کہ ہر خیال جو ہمارے ذہن میں آتا ہے ہمیں اُسے قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم برے خیالات کو دور کرکےان کی جگہ اچھّے خیالات کو دے سکتے ہیں۔
میں نے یہ بھی سیکھا کہ بے بسی محسوس کرنے کی بجائے اپنے ذہن میں آنے والی سوچوں کے بارے میں میں کچھ مثبت کام کرسکتی ہوں اور مجھے کرنا بھی چاہیے۔
عادتاً ہم بہت سے خیالات پرغور کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم ہمیشہ خُدا اور اچھّی باتوں پر غور کرتے ہیں تو دینداری ہماری فطرت کا حصّہ بن جاتی ہے۔ ہر روز ہماری سوچ میں ہزاروں خیالات جنم لیتے ہیں۔ شاید ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا ان پر کوئی کنٹرول نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگرچہ بُرے خیالات بنا کسی کوشش کے ہم پر حاوی ہو جاتے ہیں لیکن اچھّے خیالات کو سوچنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی پڑتی ہے۔ جب ہم تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں ایک جنگ میں سے گزرنا پڑے گا۔
ہمارا ذہن میدانِ جنگ ہے اورابلیس اپنے شیطانی منصوبے پرعمل درآمد کرنے کے لئے اپنا پہلا حربہ ہماری سوچ سے شروع کرتا ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں گے کہ ہم اپنی سوچوں پر کوئی اخیتار نہیں رکھتے تو ابلیس ہمیں پھنسا کر شکست دے دے گا۔ اس کے بجائے ہمیں دینداری کے خیالات کو کو اپنانا ہے۔ ہم مسلسل چناوٗ کرتے ہیں۔ یہ چناوٗ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ہمارے خیالات میں جنم لیتے ہیں۔ ہماری سوچیں الفاظ اور عمل کا روپ دھار لیتی ہیں۔
خُدا نے ہمیں فیصلہ کرنے کی قوت عطا کی ہے ۔۔۔۔۔۔ یعنی بُرے خیالات کے بجائے اچھّے خیالات پرغور کرنا۔ لیکن چناوٗ کرنے کے بعد درست خیالات کوچننے کاعمل جاری رہنا چاہیے۔ اگرچہ یہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہے لیکن ایسا کرنے سے آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ جتنا ہم دوسرے اِیمانداروں کےساتھ بائبل کو پڑھیں گے، دُعا کریں گے، پرستش کریں گے ، رفاقت رکھیں گے اتنا ہی ہمارے لئے درست خیالات کا انتخاب کرنا آسان ہوجائے گا۔
ہوسکتا ہے کہ آپ میری باتوں سے یہ اندازہ لگائیں کہ مسیح زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ کسی حد تک یہ درست ہے لیکن یہ کہانی کا صرف ایک حصّہ ہے۔ بہت سے لوگ فتح مند مسیحی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ جنگ نہیں لڑنا چاہتے۔ جب کہ فتح کا مطلب ہے رکاوٹوں کو جیتنا اور ان کو عبور کرنا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ فرمانبرداری کی زندگی بسر کرنا فتح مند زندگی بسر کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ جی ہاں، مشکلات تو ہیں لیکن آخر میں اس کا پھل بہت اچھّا ہوگا۔
صیح سمت میں سوچنے کے لئے مشق لگتی ہے اور یہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی بھلائی پر نگاہ رکھنا کوئی فطری عمل ہے۔ لیکن اگر ہم یہ جان لیں گے کہ یہی زندگی کی شاہراہ ہے۔۔۔۔۔۔موجودہ حالات اور ابدیت میں۔۔۔۔۔۔تو مثبت خیالات کے لئے ہم جو قیمت ادا کریں گے وہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔
جب شکوک اورخوف ہمیں آدباتے ہیں اُس وقت ہمیں ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے۔ ہمیں کبھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ’’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا/سکتی۔‘‘ ہمیں یقین کرنا اور یہ کہنا چاہیے کہ ’’خُدا میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے زور بخشتا ہے۔ فتح پانے کے لئے خُدا مجھے توفیق بخشتا ہے۔‘‘ پولس رسول نے اس بات کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ’’مگر خُدا کا شُکر ہے جو ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح [ہمیں فاتح بناتا ہے] بخشتا ہے۔ پس اَے میرے عزیز بھائیو ! ثابت قدم [کامل رفتار] اور قائم رہو اور خُداوند کے کام [ خداوند کی خدمت میں خوب خدمت کریں، بہترین طریقہ سے،اعلیٰ معیار کےساتھ] میں ہمیشہ افزایش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خُداوند میں بے فائدہ [یہ کبھی بھی ضائع اور لاحاصل نہیں ہوگی] نہیں ہے‘‘ (۱ کرنتھیوں ۱۵ : ۵۷ ۔ ۵۸)۔
ہم چناوٗ کرسکتے ہیں، ہم نہ صرف چن سکتے ہیں بلکہ ہم چنتے ہیں۔ جب ہم بُرے خیالات کو اپنے ذہنوں سے دور نہیں کرتے تو ہم ان کوقبضہ کی اجازت دیتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اپنا قیدی بنا لیں۔
اچھے خیالات کو اپنانے اور بُرے خیالات کو نکالنے میں وقت لگتا ہے۔ یہ آسان نہیں ہوگا، لیکن ہر بار جب ہم اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گے اور درست فیصلہ کریں گے ہم صیح سمت پر گامزن ہوں گے۔
زورآور خُدا مجھے یاد دلا کہ میں ہر روز چناوٗ کرتا/کرتی ہوں اور مجھے ایسا کرنا بھی ہے۔ برائے مہربانی میری مدد فرما کہ اپنی سوچوں پر دھیان کروں اور ان ایسی سوچوں کو چنوں جو ا بلیس پر فتح پانے میں میری مدد کریں تاکہ میں اپنے خیالات میں جنگ کو جیت سکوں۔ میں خداوند یسوع کے نام میں دُعا کرتا/کرتی ہوں۔ آمین۔
مطالعاتی منصوبہ کا تعارف
یہ کتابچہ آپ کو اُمید کے کلام سے لیس کردے گا تاکہ آپ غصّہ، اُلجھن، الزام، خوف، شک ... اور اس کے علاوہ بےشمار باتوں پر فتح پاسکیں۔ یہ پیغامات دشمن کے اس منصوبہ کو بے نقاب کرنے میں جو وہ آپ کو الجھانے اور آپ سےجھوٹ بولنے کے لئے بناتا ہے، سوچ کے تباہ کن سلسلہ کو روکنے، اپنی سوچ کو تبدیل کرنے میں کامیابی پانے، قوت حاصل کرنے
More
ہم یہ منصوبہ مہیا کرنے پر جوائس میئر کی وزارتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے۔ مزید معلومات کے لئے ، براہ کرم ملاحظہ کریں: https://tv.joycemeyer.org/urdu/